اُردو سبق آموز کہانیاں، دلچسپ اور سائنسی معلومات

سلطان راہی کا قتل


یہ 9 جنوری 1996 کی بات ہے، سلطان راہی اسلام آباد میں امریکہ کا ویزا لگوانے کے بعد جی ٹی روڈ سے واپس لاہور آرہے تھے، ان کے ڈرائیور حاجی احسن ان کے ساتھ تھے۔ گوجرانوالہ بائی پاس پر ان کی گاڑی کا ٹائر پھٹ گیا۔ حاجی احسن جیک لگا کر ٹائر بدلنے میں مصروف ہوگئے کہ دو نقاب پوش ڈاکوؤں نے سلطان راہی کی تلاشی لینے کی کوشش کی۔
سلطان راہی ڈاکوؤں کے ساتھ گتھم گتھا ہوگئے۔ ڈاکوؤں نے گھبرا کر فائر کردیا یوں گولی سلطان راہی کا جبڑا چیرتی ہوئی دماغ سے پار ہوگئی۔ ڈاکو فرار ہوگئے اور حاجی احسن مختلف گاڑیوں کو روکنے کے لیے اشارے کرتے رہے مگر کوئی بھی گاڑی نہ رکی۔ حاجی احسن نے کسی نہ کسی طرح قریبی پٹرول پمپ پر پہنچ کر پولیس کو وقوعہ کی اطلاع دی۔ سلطان راہی کے جسد خاکی کو ڈویژنل ہیڈکوارٹر ہسپتال پہنچا دیا گیا۔سلطان راہی کے قتل کی خبر گوجرانوالہ شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور اس کے پرستار جوق درجوق ہسپتال پہنچا شروع ہوگئے۔ پوسٹ مارٹم کے بعد سلطان راہی کی لاش لاہور منتقل کردی گئی۔ ان کے اہل خانہ امریکہ میں تھے، ان کے آنے کا انتظار کیا گیا اور 14 جنوری 1996 کو انہیں لاہور میں شاہ شمس قادری کے مزار کے احاطے میں سپرد خاک کردیا گیا

سلطان راہی نے بطور فلم ساز ایک فلم ’تقدیر کہاں لے آئی‘بھی بنائی تھی۔ 1976 میں ریلیز ہونے والی یہ اردو فلم بری طرح ناکام ہوئی۔ اس کے بعد انھوں نے پھر کوئی فلم نہیں بنائی لیکن بہت سے فلم سازوں کو فلمیں بنانے میں مالی مدد فراہم کی۔ وہ ایک فراخ دل اور مخیر شخص تھے۔ بہت سے ہنر مندوں کے گھروں کے چولہے ان کی دریا دلی کی وجہ سے جلتے تھے۔
انھوں نے ایورنیو سٹوڈیو میں ایک مسجد بھی بنوائی تھی جو اپنی نوعیت کی واحد مسجد ہے۔ وہ ایک اچھے قاری بھی تھے، جب وہ قرآن پاک کی تلاوت کرتے تھے تو ایک سماں بندھ جاتا تھا۔ سلطان راہی ایک بہت سادہ مزاج انسان تھے۔ انھوں نے انور مقصود کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ وہ کھانا بھی زمین پر بیٹھ کر کھاتے ہیں اور سوتے بھی زمین پر ہی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’مجھے زمین سے بہت زیادہ محبت ہے، میں زمین کو ہمیشہ زیادہ ترجیح دیتا ہوں کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ مجھے جانا اسی کے نیچے ہے۔‘سلطان راہی نے مجموعی طور پر 804 فلموں میں کام کیا جن میں756 فلمیں نمائش پذیر ہوئیں ان میں 538 فلمیں پنجابی زبان اور 157 فلمیں اردو زبان، 5 پشتو اور ایک سندھی فلم شامل تھیں۔
ان کی 50 سے زیادہ فلمیں ڈبل ورژن تھیں ان میں سے 430 فلمیں ایسی تھیں جن کے ٹائٹل رول سلطان راہی نے ادا کیے تھے۔ ان کے قتل کے وقت ان کی 54 فلمیں زیر تکمیل تھیں۔ سلطان راہی کی ان 800 سے زیادہ فلموں میں 28 فلمیں ڈائمنڈ جوبلی، 54 فلمیں پلاٹینم جوبلی اور 156 فلمیں سلور جوبلی تھیں۔ایک زمانے میں سلطان راہی کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ 12 اگست 1981 کو ان کی پانچ فلمیں شیر خان، ملے گا ظلم دا بدلہ، اتھرا پتر، چن وریام اور سالا صاحب ایک ہی روز نمائش پذیر ہوئی تھیں جنھوں نے کامیابی کے ریکارڈ قائم کیے تھے


Youtube Channel Image
Daily New AI Tools Don't miss out on the latest updates
Subscribe